کچھ لمحے ایدھی صاحب کے نام۔۔۔
عبدالستارایدھی فاؤنڈیشن زیادہ 1800 نجی ایمبولینس وینز کا مالک ہے ایک دن میں لوگ کی طرف سے 6،000 سے زائد کال کی اطلاع ملتی ہے۔ یڈی فاؤنڈیشن نے طوفان کیرینہ کے بعد ریلیف کی کوششوں کے لئے امداد میں 100،000 ڈالر فراہم کیے ہیں- آدھی 8 جولائی 2016 کو 88 سال کی عمر میں گردے کی ناکامی کی وجہ سے الله کو پیارے ہو گہے۔عبدالستارایدھی 1928 میں انڈیا کے ایک علاقے کاٹھیاوار میں پیدا ہوے انکے والد بمبئ میں اپنا کاروبار کرتے تھے۔ لیکن خود ان کا کہناے کہ وہ گجراتی لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں لیکن اس کے علاوہ انہیں کچھ اور لکھنا اور پڑھنا نہیں آتا۔ 24 سال کی عمر میں پاکستان کی آزادی کے چھٹے دن وہ کراچی آے اس وقت کراچی ایک چھوٹا سا شہر تھا اور دوسرے پاکستان کے شہروں اور گاؤں کی طرح اسے بھی مہاجرین کی آبادکاری کا مسلہ درپیش تھا 150000 مہاجر اس وقت کراچی میں ریڑکراس اور سینٹ جونس کیمپرفا ھی کام انجام دے رے تھے۔ انہی دنوں کراچی میں فلو کی وباء پھیل گئ ایدھی صاحب جو اس وقت ایک میڈیکل سٹور چلارھے تھے انہوں نے بیشتر ڈاؤمیڈیکل کالج کے کچھ ڈاکڑز کو جمع کیا اور انہیں مریض دیکھنے کو کہا حالانکہ یہ صرف ایک چھوٹا سا کام تھا جو انہوں نے انجام دیا۔ لیکن اس سے اتنہا ضررو ہوا لوگوں تک ان کی سوچ پہنچ گہی کہ انسان میں خوددم و اورکچھ کر دکھانے کی صلاحیت بھی ہو تو اس کا راستہ کوہی نھیں روک سکتا۔ 24 برس کی عمر میں انہوں نے اپنی چھوٹی سی دوکان کو اتنا بڑھا دیا ھے کہ آج پورے ملک میں ان کے 400 سے زاہد فاؤنڈیشن سینٹر کام کر رھے ھیں
۔ پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود ایدھی صاحب نے کہی ممالک کی سیر کی وہاں
لوگوں میں رفاہی طور پر کام کرنے کے جوش اور ہمت کو پرکھا ۔ سادگی پسند اس شخص کی
شریک حیات بھی اس کی ناصرف ھم خیال ھیں بلکہ کہی ایدھی فاؤنڈیشن میں لڑکیوں کی
تعلیم و تربیت کے لیے بے پناہ کوششیں بھی کررہی ھیں ایک ایسے معاشرے میں جہاں آپ
بھوک اور مہنگاہی کے رونے رو رھے ھیں وھیں کچھ افراد اس بھوک اور مہگاہی کے طوفان
سے لڑرھے ھیں اور یہ بات ثابت کررھے ھیں کہ وہ افراد جو حالات کی تیزی اور تلخی سے
ڈر کر بیٹھ جاتے ھیں وہ دوسروں کے لیے مفید ثابت نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کے راستے
کا پتھر بن جاتے ھیں جو ہمیشہ ٹھوکروں پر
رہتا ہے ایدھی صاحب کی خواہش ہے کہ ان کے بعد ان کا کام ان کے بچے اور انکی شریک
حیات سنبھالیں۔۔۔اگر آپ ان کے خیالات
پڑھیں توآپ کو محسوس ہوگا کہ زندگی میں چوٹی سی کرن آپ کے لیے کتنی اہمیت رکھتی
ہے۔۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 3% امراء کی آبادی باقی 97 % لوگوں کا حق مار
رکھا ہےنہ ہی وہ لوگوں کی ترقی کے ضمن میں کوہی اچھا کرتے ہیں مجھے یقین ہے کہ
تفاوت اور بھوک لوگوں مہیں جراہم کی سب سے
بڑی وجہ ہے اگر ہماس بات کو دیکھں تو واقعی یہ بالکل ٹھیک بات ہے کیونکہ پاکستان میں
عبدالستارایدھی جیسے لوگ بہت کم ہیں جو سچے دل اور اچھی نیت کے ساتھ اپنا کام بنا
کسی لالچ کے سرانجام دے رہے تھے۔
0 Comments